سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں۔ پھر تین رمضان المبارک11ھ میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس یا انتیس 28یا29برس ذکر کی ہے۔حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے سن وفات اور ان کی عمر کی تعیین میں سیرت نگاہوں نے متعدد اقوال لکھے ہيں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال اور مدت عمر درج کی ہے۔
(البدایہ والنھایہ ج6ص334۔ تحت حالات 11ھ)
(وفاءالوفاءللسمھودی ج3ص905۔ تحت عنوان قبر فاطمہؓ بن رسول اﷲﷺ)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بلا واسطہ آخری اولاد تھیں۔ جن کاانتقال اب ہوا۔ ان کے بعد آنجناب کو کوئی اولاد باقی نہ رہی اور سردار جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی جو ايک نشانی باقی رہ گئی تھی وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں پہنچ گئی۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال اور ارتحال خصوصاً اس وقت کے اہل اسلام کے لئے ايک عظیم صدمہ تھا۔ جو مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم موجود تھے ان کے غم و الم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہوگئی۔ تمام اہل مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اس صدمہ کبری کی وجہ سے نہایت اندوہ گین تھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا اندوہ گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بلاواسطہ اولاد کی نسبی نشانی اختتام پذیر ہوگئی تھی۔ اب صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات (امہات المومنینؓ) آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی نشانی باقی رہ گئے تھے۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادت عظمیٰ سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماءنے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا غسل
اور اسما بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کا خدمات
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے قبل از وفات حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کو يہ وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ ان کے ساتھ معاون ہوں۔
چنانچہ حسب وصیت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا نے آپ رضی اﷲ عنہا کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیبیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اﷲ عنہ کی بیوی سلمی رضی اس عنہا اور ام ایمن رضی اﷲ عنہا وغیرہا۔حضر علی المرتضی رضی اﷲ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے۔
(اسد دالغابہ ج5ص478تحت سلمی امراة ابی رافع ؓ)
(البدایة والنہا یة ج6ص333 تحت حالات11ھ)
(حلیة الاولیا لابی نعیم الاصفہانی ص43جلد2۔ تحت تدکرہ فاطمة الزہراؓ)
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اﷲ عنہا کے بعض وصایا جو غسل واغتسال کے متعلق پائے جاتے ہیں ان میں بعض چیزیں بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں۔
چنانچہ علماء نے اس موقعہ پر فرمایا ہے کہ :۔
مطلب يہ ہے کہ بعض روایات میں جو آیا ہے کہ حضر فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے انتقال سے قبل غسل کر لیا تھا اس قسم کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
(اس کی وجہ صنف ابن اسحاق کا تفرد ہے)
غسل کے متعلق وہی چیز صحیح ہے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے یعنی حضر ت اسماء بنت عمیس اور دیگر خواتین نے مل کر حسب قاعدہ شرعی بعد از وفات غسل سرانجام دیا تھا۔ اس لئے کہ میت کےلئے اسلام کا قاعدہ شرعی یہی ہے۔
(البدایہ النہایہ ج6ص333۔ تحت ذکر من تو فی ہذھ النسة11ھ)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی صلوة جنازہ
اور شیخین رضی اﷲ عنہم کی شمولیت
غسل اور تجہیز وتکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمة الزہرا رضی اﷲ عنہا کے جنازہ کی مرحلہ پیش آیا ۔
آنمحترمہ کے جنازہ پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور ديگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم جو اس موقعہ پر موجود تھے،تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کو صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں۔جواب میں حضرت علی المرتضی نے ذکرکیا کہ آنجناب خلیفہ اول رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جناب کی موجودگی میں میں جنازہ پڑھانے کے لئے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائيں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعدحضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اﷲ تعالی عنہا کا چار تکبیر کے ساتھ جناز ہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات ان کی اقتداء میں صلوة جنازہ ادا کی۔
یہ چیز متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہے چنانچہ چند ايک عبارتیں اہل علم کی تسلی خاطر کےلئے بعینہ یہاں نقل کرتے ہیں۔
1۔یعنی ابراہیم (النخعی) فرماتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
(طبقات ابن سعد ج8ص19 تحت تذکرہ فاطمہؓ طبع لیڈن)
2۔ یعنی امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ اپنے والد امام محمد باقر رضی اﷲ عنہ سے ذکر فرماتے ہیں کہ محمد باقر نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا فوت ہو ئیں ابو بکر صدیق اور عمر رضی اﷲ عنہم دونوں تشریف لائے تا کہ جنازہ کی نماز پڑھیں۔تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کو فرمایا کہ آپ آگے ہو کر نماز پڑھائيے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ آپ خلیفہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں آپ رضی اﷲ عنہ کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں ہوتا۔پس ابوبکر رضی اﷲعنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمة الزہرا رضی اﷲ عنہا کا جنازہ پڑھایا۔
(کنزال العمال ج6ص318 حظ فی رواة مالک ۔طبع اول حید رآباد۔دکن تحت فضل الصدیق ؓ۔ مسندات علیؓ ۔باب فضائل الصحابة)
3۔یعنی حضرت صادق رضی اﷲ عنہ اپنے محمد باقر رضی اﷲ عنہ اور وہ اپنے والد زین العابدین رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان فاطمة الزہرا رضی اﷲ عنہ کی وفات ہوئی ( ان کی وفات پر) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ اور عثمان رضی اﷲ عنہ اور زبیررضی اﷲ عنہ اور عبد الرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ تشریف لائے۔ جب نماز جنازہ پڑھنے کے ليے جنازہ سامنے رکھا گیا تو علی المرتضی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو کہا کہ نماز پڑھانے کےلئے آگے تشریف لائيے تو صدیق رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ اے ابو الحسن کیا آپ رضی اﷲ عنہ کی موجود گی میں؟ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ آگے تشریف لائيے، اﷲ کی قسم آپ رضی اﷲ عنہ کے بغیر کوئی دوسراشخص فاطمہ رضی اﷲ عنہا پر جنازہ نہیں پڑھائے گا۔ پس ابوبکر رضی اﷲعنہ نے فاطمتہ الزہرا کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رضی اﷲ تعالی عنہم اجمعین ۔اور رات کو ہی حضرت فاظمہ رضی اﷲ عنہ کو دفن کر دیا گیا۔
(ریاض النضرةلمحب الطبری ج1ص156۔ تحت باب وفات الفاطمة )
4۔طبقات ابن سعد میں ہے:۔
یعنی شعبی کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ الزہرا پر حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے نماز جنازہ پڑھی۔
(طبقات ابن سعد۔ ج 8ص19تحت تذکرہ فاطمہ رضی اﷲ عنہ۔ طبع قدیم۔ لیڈن)
دفن سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا
صلوة جنازہ کے بعد حضرت فاطمة الزہرا رضی اﷲ عنہا کو عام روایات کے مطابق رات ہی کو جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا ۔
اور دفن کے لئے قبر میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ۔حضرت عباس عم نبوی اور فضل بن عباس اترے۔دفن وقبر کے متعلق متعدد روایات مختلف قسم کی پائی جاتی ہیں۔عام روایات کے پیش نظر اس کا ذکر کیا ہے۔
(الاصابہ ج4ص398 تذکرہ فاطمہؓ)
حاصل کلام يہ ہے کہ:۔
یہ چند روایات حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے جنازہ کے متعلق ہم نے یہاں ذکر کی ہیں۔
1۔حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی وفات کی اطلاع اکابر صحابہ کرام کو یقینا ہو گئی تھی۔خصوصاً صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اپنی زوجہ محترمہ اسما ءبنت عمیس کے ذریعے حضر فاطمة الزہرا کے ان تمام احوال سے یقینا باخبر تھے۔
2۔نماز جنازہ کے لئے حضرات شیخین صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ وعمر فاروق رضی اﷲ عنہ بمع ديگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے تشریف لائے تھے اور اس میں شریک و شامل ہوئے۔
3۔حضرت فاطمة الزہرا رضی اﷲ عنہا ی نماز جنازہ چار تکبیر کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی تھی۔
4۔ حضر فاطمتہ الزہرا رضی اﷲ عنہا کی نعش مبارک کو رات کو ہی دفن کر دیا گیا اور ازارہ تستر اور پردہ داری کے طور پر تھا۔ اور اس میں شری مسئلہ” تعجیل دفن“ بھی ملحوظ خاطر تھا۔
5۔حضرات شیخین رضی اﷲ عنہم اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے درمیان کسی قسم کی باہمی مخاصمت اور ناچاکی نہیں تھی۔ مندرجہ بالا واقعات اس کی بین دلیل ہیں اور واضح شواہد ہیں۔
اور بعض روایات میں جو چیزیں مذکور ہیں:۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ے ناراض تھی اس وجہ سے ان کو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی بیماری۔پھروفات اور جنازہ اور دفن کی اطلاع تک نہیں کی گئی تھی۔
یہ چیزیں واقع میں درست نہیں ہیں بلکہ يہ تمام چیزیں ظن راوی ہیں اور راویوں کا اپنا گمان ہیں جو انہوں نے صحیح واقعات میں ملا کر نشر کر دیا ہے اور اصل واقعات میں مخلوط شدہ چیزوں کو پھیلا دیا ہے۔
محمد راشد حنفی