کیا آپ جانتے ہیں؟
شیعی مکروفریب اور ورغلاکر
اپنے مذہب کی طرف لانے کے طریقے
يہ ايک ایسا علم ہے جس کی بنیاد دھوکہ پر استوار ہوئی ہے اورجس کی بے شمار شاخیں ہیں۔ اس لئے يہ ضروری ہے کہ اول ہم اس فن کے اصول و کلیات بتائیں
روافض کے دھوکے
معلوم ہونا چاہيے کہ دھوکے تین قسموں سے زائد نہیں ہوتے۔
1۔ یا تو وہ محض افترا اور بہتان ہے ۔ جو وہ اہل سنت پر باندھتے ہیں۔
2۔یا انداز گفتگو اور طرز بیان میں کچھ گڑبڑ یا تبدیلی پیدا کرنا مثلاً ايک امر واقعی کو اس ڈھب سے بیان کرتے ہیں کہ اس کو سن کر عوام کے خیالات میں لازمی انتشار پیدا ہو۔
3۔یا مذہب اصل سنت اصل ہیں تو بغیر تغیر وتبدیل کے بے کم کاست ہے۔اور بطور حقیقت وہ کسی لعن و طعن کے قابل ہے۔
يہ بات بھی علم میں رہے کہ شیعی فرقوں میں باعتبار دھوکہ دہی اور لعن وطعن سب سے زیادہ سخت فرقہ امامیہ ہے ۔ يہ لوگ مذہبی دعوت کو بہت اہمیت ديتے ہیں حالانکہ خود انکے مذہب میں دوسرے کو اپنے مذہب کی دعوت دینا حرام اور ممنوع ہے ۔گویا اس دعوت میں وہ اپنے ہی اعتقاد کے مطابق مجرم اور گنہگار ٹھیرتے ہیں ۔چنانچہ کلینی امام صادق رحمتہ اﷲ علیہ سے روایت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا کفو عن الناس ولاتدعو احد الی امرکم(لوگوں سے کنارہ کش رہو اور کسی ايک کو بھی اپنے مذہب کی دعوت نہ دو) جب اماممرحوم نے دعوت سے ممانعت فرما دی تو دعوت حرام ہوئی اور اس کا ارتکاب بلکہ اس سے بھی زائد اسے عبادت کا درجہ دینا امام معصوم کی صريح مخالفت ہے ۔
ورغلانے اور دھوکہ دينے کے قواعد کلیہ
يہ بات جان لینی چاہيے کہ اہل تشیع کے نزديک مذہب کی بنیاد کے لئے سات قسم کے آدمی ضروری اور لابدی ہیں۔
اول: امام، کہ اس کو پردہ غیب سے بلا واسطہ غلم ملتا ہے اور وہ علم حاصل کرنے کےلئے زنجیر کی آخری کڑی ہے۔
دوسرا: حجت، يہ وہ ہے کہ جو مخاطب یا سامع کے مذاق کے مطابق اصول خطابت وبرہان کی رعایت کرتے ہوئے امام کے علم کو بیان کرتا ہے۔
تیسرا: ذومصہ، يہ وہ ہے جو علم کو حجت کے ذریعہ چوستا،یا کھینچتا ہے۔کیونکہ عربی لغت میں مص پستان سے دودھ چوسنے کو کہتے ہیں۔
چوتھا: ابواب ، ان کو دوسرے لفظوں میں دعاة بھی کہتے ہیں ان کے چند مراتب ہیں،سب سے بڑا داعی وہ ہے جو مومنین کا درجہ بڑھائے اور ان کو ترقی کی راہ پر لگا کر امام وحجت سے قریب کر دے۔
پانچواں: داعی ماذون۔ يہ وہ ہے جو لوگوں سے عہدو پیمان لے کر ان کو مذہب میں شامل کرتا ہے۔ اور ان پر علم و معرفت کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔
چھٹا:مکلب، يہ وہ ہے جواگرچہ بذات خود بلند مرتبہ کا مالک ہے۔لیکن وہ دعوت مذہب کا مجاز نہیں۔ اس کی ذمہ داری صرف يہ ہے کہ دلیل وحجت سے لوگوں کو ہموار کرے، اور ان کو گھیرگھار کر صحبت میں کھینچ لائے۔ اس کو شکاری کہنے سے تشبیہ دی ہے۔ جو شکار کو ہانک کر اور ہر طرف سے اس کا راستہ بند کر کے شکاری کے پاس لے آتا ہے۔ویسا ہی يہ مکلب ہے کہ آدمی کے مذہب میں شبہات ڈالتا ہے اور اس کے ہر احتمال کا جواب دیتا ہے۔ جب وہ آدمی متحیر ہو جتا ہے اور اس کے دل میں حق طلبی کا جذبہ اور حق جوئی کا مادہ پیداہو جاتا ہے تو وہ مکلب اس کو داعی ماذون کے پاس لے جاتا ہے اور دعی ماذون اس سے عہدوپیمان لے کر ذومصہ کے حوالے کرتا ہے اگر اسی شخص کی استعداد قابلیت دومصہ سے بلند تر ہو تو وہ اس کو حجت تک پہنچاتا ہے اور وہ اس کو اسی طرح امام تک،بشرطیکہ امام مفقود نہ ہو۔
ساتواں: وہ متبع مومن جو کلب اور داعی کی کوشش سے امام کی تصدیق کر دے۔ اور دل میں امام کی متابعت کا عزم بالجزم رکھے۔
مراتب و دعوت
پھر اسی طرح دعوت کے بھی سات مراتب ہیں
اول مرتبہ: زرق، یعنی عقل وفراست سے مدعو کے بارے میں صحیح جانچ پرکھ کہ وہ دعوت کے قابل ہے یا نہیں۔ یا اس پردعوت زیادہ اثر کرے گی یا نہیں کیونکہ انہیں کے بقول بنجر زمین میں تخم ریزی نہیں کرنی چاہيے یعنی جو دعوت کی قابلیت نہ رکھتا ہو اسے دعوت نہیں دینی چاہيے انکا يہ بھی قول ہے کہ جہاں روشنی ہو ہاں دم نہیں مارنا چاہيے۔یعنی جس جگہ اہل سنت کا اصول،یا متکلم عالم ہو وہاں لب کشائی مناسب نہیں۔
دوسرا مرتبہ: مدعو کو خور سے مانوس کرنا۔ اور ہر شخص کے مذاق کے مطابق اس کی دلجوئی کرنا مثلاً ايک شخص زہد و طاعت کی طرف زیادہ مائل اوراس کا دلدادہ ہے تو اس کے سامنے اپنے آپ کو بھی زاہد متقی ثابت کرنا۔ ائمہ کرام سے زہد وطاعت کے ثواب کو بڑھا بڑھا کر بیان کرنا۔
یا کوئی دوسرا جواہرات وزیورات پر فدا ہے اور ان کا شوقین ہے تو اس کے سامنے عقیق و یاقوت اور فیروزے کی فضلیتوں کی روایات بیان کرنا۔ اور اس پر ثواب عظیم کا وعدہ دینا۔ اسی طرح دیگر تمام امور خصوصاً کھانے ،اولاد عورتوں باغات یا گھوڑوں یا ان کے علادوہ معاملات میں مخاطب کے طبعی رحجان کے موافق بات کرنا۔
تیسرا مرتبہ:تشکیک، یعنی فرقی مخالف کے عقائد و اعمال میں شک وشبہ پیداکرنا۔ مثلاً قصہ فدک بیان کرنا۔ اور اس میں حدیث قرطاس کا بیان چھیڑدینا۔ اور آنحضرت ﷺ کی تاریخ معین نہ کرنا۔ اور ايسے ہی آپ کے نسک کی تعین وتشخیص نہ کرنا۔ کہ آیا وہ حج افرادتھا یا قران یاتمتع۔
یا اہل سنت کے مسائل میں فروعی اختلاف کو چھیڑنا۔ مثلاً رفع یدین کرنا نہ کرنا۔ بسم اﷲ بالجہر پڑھنا یا نہ پڑھنا۔ یا مقطعات قرآنی کا ذکر درمیان میں لانا یا متشابہات کے براے میں تفاسیری اختلاف کو چھیڑنا موضوع بحث بنانا۔ یا ان جیسی کسی اور بات کی طرف کلام کا رخ باربار پھیرنا۔ اور اس پر اظہار کرنا تا کہ سامع کے دل میں ترود اور شک پیدا ہو اور مخاطب ان امور کی تحقیق حق کی طرف مائل ہو جائے۔ اور اپنے اہل سنت کے مذہبوں سے مایوس ہو کر دوسرے مذہب کی طرف جھک جائے۔
چوتھا مرتبہ: ربط، یعنی عہد و پیمان کرنا اور ہر شخص سے اس کے اعتقاد کے موافق پختہ قول و اقرار کرنا کہ وہ ان بھیدوں کو فاش نہ کرے اور ان کو منظر عام پر نہ لائے، ان میں بعض ايسے ہیں جو مرتبہ تشکیک کے بعد مرتبہ چہارم میں حوالہ کرتے ہیں ان کی اصلاح ہیں حوالہ کہ يہ معنے ہیں کہ جو اور اپنے سے حل نہ ہو سکیں ان کی تشریح کےلئے امام کی طرف رجوع کرنا چاہيے۔ يہ بھی ظاہر کر دینا چاہيے کہ امام دراصل اسی کام کے لئے کہ علم بلا واسطہ غیب سے حاصل کر کے امت تک پہنچائے اور ایسی پریشانی کے دنوں میں بستہ امور کا حل بیان کر کے اختلافات کی جڑ کاٹے۔ اگر اہل سنت بھی اپنے علوم کا استفادہ امام سے کرتے تو آج اس زق زق بک بک میں نہ پڑتے اور الٹی سیدھی باتیں نہ کرتے۔
پانچواں مرتبہ: تدلیس،یعنی ان اکابردین، اکابر علماء اور برگزیدہ اولیاء کے بارے میں باجماع امت اس مذہب کے مخالف تھے يہ دعوی کرنا کہ وہ ہمارے ہم مذہب تھے۔مثلاً انہوں نے يہ کہا کہ حضرت سلمان فارسی ،ابوذرغفاری ،مقداد کندی اور عماریاسر رضی اﷲ عنہم شیعہ مذہب رکھتے تھے اور ان کے بعض کلمات کو اپنے جھوٹے دعوى پر بطور دلیل پیش کرنا۔ اور کہنا کہ حضرت حسان بن ثابت،حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم ،حضرت اویس قرنی اور تابعین میں سے حضرت بصری اور امام غزالی ملقب بحجتہ الاسلام بھی شیعہ تھے ۔
اور کتاب سرالعالین کو جو محض ان بزرگ پر افتراء و بہتان ہے۔ اپنے دعوی کا شاہد بنانا اور کہنا کہ حکیم سنائی،مولانا روم،شمس تبریز اور خواجہ شیرازی رحہم اﷲ بھی باطن میں شیعہ تھے۔ اور ان بیات کو جن ان سے منسوب ہیں یا ان کی مثنویات اور دیوانوں سے ملحق ہیں اپنے کلام کا گواہ بنانا۔
يہ ساری دروغ گوئی اس غرض سے کرتے ہیں کہ سامع کا میلان مذہب شیعہ کی طرف زیادہ ہو اور وہ سوچے کہ جس چیز کوان اکابرین دین نے اختیار کیا اور يہ پوشیدہ رکھا ہے لامحالہ اس میں بھی کوئی بھید اور راز ہے۔
چھٹا مرتبہ: تاسیس، یعنی اپنے قاعدوں منابطوں کو سامع کے ذہن میں رفتہ رفتہ جمانا۔ اور ان کے اصول مبادیات کو جو بمنزلہ بنیاد کے ہیں۔ ایسے طریقہ پر ان کے ذہن نشین کرنا کہ جب نتیجہ ان کے سامنے لایا جائے تو سوچ بچار کی گنجائش نہ رہے اور اس کو قبول کرتے ہی بنے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ قرآن مجید تمام مسلمانوں کو محور دین و ایمان ہے کسی کو اس سے مجال انکار نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس میں جو کچھ فرمایا ہے ۔واجب القبول اور لائق تسلیم ہے۔ يہ کہہ کر پھر کہتے ہیں کہ آپ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی لقربی(آپ کہتے ہیں میں اس ہدایت پر قرابت داروں سے محبت کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا) کیا معنی رکھتی ہے ۔اور الفاظ الالعنة اﷲ علی الظالمین۔خبردار ہو کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے کے متعلق کیا کہتے ہو۔اور قراة متواترہ اَرجُلِکُم (زیر کے ساتھ) کیا مطلب ظاہرکرتی ہے؟؟ اور قراةشاذہ فما اتمتعتم بہ منہن الی اجل مسمی۔ کیا مضمون ادا کرتی ہے۔
ساتواں مرتبہ:خلع، یعنی چہرہ کا پردہ ايک طرف رکھ کر صحابہ کرام رضوان اﷲ علہیم کی طرف ظلم و غضب کی نسبت کھلم کھلا کرنا۔ اور اپنے مذہب کے اصول وفروع کے صاف صاف بیان کرنا۔جب مدعو اس حد تک پہنچ جائے کہ سب امور کو برداشت کرے تو گویا مقصد حاصل ہوگیا۔ ان میں سے بعض خلع کے بعد ايک مرتبہ اور اضافہ کرتے ہیں جس کو سلخ کہتے ہیں،یعنی مدعو سے اپنے سابقہ معتقدات سے اظہار بیزاری کرانا اور اس کے آباؤ اجداد جو اس مذہب پر تھے ان سے اس کو متنفرکرنا۔ اور اولاد و اقارب سے قطع تعلق کرانا۔
عام طور پرتو ہوتا يہ ہے کہ ساتویں مرتبہ تک پہنچتے پہنچتے يہ باتیں ازخود مدعو میں پیدا ہو کر رہتی ہیں۔ اس لئے داعی کو ان امور ی دعوت کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔
شیعی مکروفریب اور ورغلاکر
اپنے مذہب کی طرف لانے کے طریقے
يہ ايک ایسا علم ہے جس کی بنیاد دھوکہ پر استوار ہوئی ہے اورجس کی بے شمار شاخیں ہیں۔ اس لئے يہ ضروری ہے کہ اول ہم اس فن کے اصول و کلیات بتائیں
روافض کے دھوکے
معلوم ہونا چاہيے کہ دھوکے تین قسموں سے زائد نہیں ہوتے۔
1۔ یا تو وہ محض افترا اور بہتان ہے ۔ جو وہ اہل سنت پر باندھتے ہیں۔
2۔یا انداز گفتگو اور طرز بیان میں کچھ گڑبڑ یا تبدیلی پیدا کرنا مثلاً ايک امر واقعی کو اس ڈھب سے بیان کرتے ہیں کہ اس کو سن کر عوام کے خیالات میں لازمی انتشار پیدا ہو۔
3۔یا مذہب اصل سنت اصل ہیں تو بغیر تغیر وتبدیل کے بے کم کاست ہے۔اور بطور حقیقت وہ کسی لعن و طعن کے قابل ہے۔
يہ بات بھی علم میں رہے کہ شیعی فرقوں میں باعتبار دھوکہ دہی اور لعن وطعن سب سے زیادہ سخت فرقہ امامیہ ہے ۔ يہ لوگ مذہبی دعوت کو بہت اہمیت ديتے ہیں حالانکہ خود انکے مذہب میں دوسرے کو اپنے مذہب کی دعوت دینا حرام اور ممنوع ہے ۔گویا اس دعوت میں وہ اپنے ہی اعتقاد کے مطابق مجرم اور گنہگار ٹھیرتے ہیں ۔چنانچہ کلینی امام صادق رحمتہ اﷲ علیہ سے روایت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا کفو عن الناس ولاتدعو احد الی امرکم(لوگوں سے کنارہ کش رہو اور کسی ايک کو بھی اپنے مذہب کی دعوت نہ دو) جب اماممرحوم نے دعوت سے ممانعت فرما دی تو دعوت حرام ہوئی اور اس کا ارتکاب بلکہ اس سے بھی زائد اسے عبادت کا درجہ دینا امام معصوم کی صريح مخالفت ہے ۔
ورغلانے اور دھوکہ دينے کے قواعد کلیہ
يہ بات جان لینی چاہيے کہ اہل تشیع کے نزديک مذہب کی بنیاد کے لئے سات قسم کے آدمی ضروری اور لابدی ہیں۔
اول: امام، کہ اس کو پردہ غیب سے بلا واسطہ غلم ملتا ہے اور وہ علم حاصل کرنے کےلئے زنجیر کی آخری کڑی ہے۔
دوسرا: حجت، يہ وہ ہے کہ جو مخاطب یا سامع کے مذاق کے مطابق اصول خطابت وبرہان کی رعایت کرتے ہوئے امام کے علم کو بیان کرتا ہے۔
تیسرا: ذومصہ، يہ وہ ہے جو علم کو حجت کے ذریعہ چوستا،یا کھینچتا ہے۔کیونکہ عربی لغت میں مص پستان سے دودھ چوسنے کو کہتے ہیں۔
چوتھا: ابواب ، ان کو دوسرے لفظوں میں دعاة بھی کہتے ہیں ان کے چند مراتب ہیں،سب سے بڑا داعی وہ ہے جو مومنین کا درجہ بڑھائے اور ان کو ترقی کی راہ پر لگا کر امام وحجت سے قریب کر دے۔
پانچواں: داعی ماذون۔ يہ وہ ہے جو لوگوں سے عہدو پیمان لے کر ان کو مذہب میں شامل کرتا ہے۔ اور ان پر علم و معرفت کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔
چھٹا:مکلب، يہ وہ ہے جواگرچہ بذات خود بلند مرتبہ کا مالک ہے۔لیکن وہ دعوت مذہب کا مجاز نہیں۔ اس کی ذمہ داری صرف يہ ہے کہ دلیل وحجت سے لوگوں کو ہموار کرے، اور ان کو گھیرگھار کر صحبت میں کھینچ لائے۔ اس کو شکاری کہنے سے تشبیہ دی ہے۔ جو شکار کو ہانک کر اور ہر طرف سے اس کا راستہ بند کر کے شکاری کے پاس لے آتا ہے۔ویسا ہی يہ مکلب ہے کہ آدمی کے مذہب میں شبہات ڈالتا ہے اور اس کے ہر احتمال کا جواب دیتا ہے۔ جب وہ آدمی متحیر ہو جتا ہے اور اس کے دل میں حق طلبی کا جذبہ اور حق جوئی کا مادہ پیداہو جاتا ہے تو وہ مکلب اس کو داعی ماذون کے پاس لے جاتا ہے اور دعی ماذون اس سے عہدوپیمان لے کر ذومصہ کے حوالے کرتا ہے اگر اسی شخص کی استعداد قابلیت دومصہ سے بلند تر ہو تو وہ اس کو حجت تک پہنچاتا ہے اور وہ اس کو اسی طرح امام تک،بشرطیکہ امام مفقود نہ ہو۔
ساتواں: وہ متبع مومن جو کلب اور داعی کی کوشش سے امام کی تصدیق کر دے۔ اور دل میں امام کی متابعت کا عزم بالجزم رکھے۔
مراتب و دعوت
پھر اسی طرح دعوت کے بھی سات مراتب ہیں
اول مرتبہ: زرق، یعنی عقل وفراست سے مدعو کے بارے میں صحیح جانچ پرکھ کہ وہ دعوت کے قابل ہے یا نہیں۔ یا اس پردعوت زیادہ اثر کرے گی یا نہیں کیونکہ انہیں کے بقول بنجر زمین میں تخم ریزی نہیں کرنی چاہيے یعنی جو دعوت کی قابلیت نہ رکھتا ہو اسے دعوت نہیں دینی چاہيے انکا يہ بھی قول ہے کہ جہاں روشنی ہو ہاں دم نہیں مارنا چاہيے۔یعنی جس جگہ اہل سنت کا اصول،یا متکلم عالم ہو وہاں لب کشائی مناسب نہیں۔
دوسرا مرتبہ: مدعو کو خور سے مانوس کرنا۔ اور ہر شخص کے مذاق کے مطابق اس کی دلجوئی کرنا مثلاً ايک شخص زہد و طاعت کی طرف زیادہ مائل اوراس کا دلدادہ ہے تو اس کے سامنے اپنے آپ کو بھی زاہد متقی ثابت کرنا۔ ائمہ کرام سے زہد وطاعت کے ثواب کو بڑھا بڑھا کر بیان کرنا۔
یا کوئی دوسرا جواہرات وزیورات پر فدا ہے اور ان کا شوقین ہے تو اس کے سامنے عقیق و یاقوت اور فیروزے کی فضلیتوں کی روایات بیان کرنا۔ اور اس پر ثواب عظیم کا وعدہ دینا۔ اسی طرح دیگر تمام امور خصوصاً کھانے ،اولاد عورتوں باغات یا گھوڑوں یا ان کے علادوہ معاملات میں مخاطب کے طبعی رحجان کے موافق بات کرنا۔
تیسرا مرتبہ:تشکیک، یعنی فرقی مخالف کے عقائد و اعمال میں شک وشبہ پیداکرنا۔ مثلاً قصہ فدک بیان کرنا۔ اور اس میں حدیث قرطاس کا بیان چھیڑدینا۔ اور آنحضرت ﷺ کی تاریخ معین نہ کرنا۔ اور ايسے ہی آپ کے نسک کی تعین وتشخیص نہ کرنا۔ کہ آیا وہ حج افرادتھا یا قران یاتمتع۔
یا اہل سنت کے مسائل میں فروعی اختلاف کو چھیڑنا۔ مثلاً رفع یدین کرنا نہ کرنا۔ بسم اﷲ بالجہر پڑھنا یا نہ پڑھنا۔ یا مقطعات قرآنی کا ذکر درمیان میں لانا یا متشابہات کے براے میں تفاسیری اختلاف کو چھیڑنا موضوع بحث بنانا۔ یا ان جیسی کسی اور بات کی طرف کلام کا رخ باربار پھیرنا۔ اور اس پر اظہار کرنا تا کہ سامع کے دل میں ترود اور شک پیدا ہو اور مخاطب ان امور کی تحقیق حق کی طرف مائل ہو جائے۔ اور اپنے اہل سنت کے مذہبوں سے مایوس ہو کر دوسرے مذہب کی طرف جھک جائے۔
چوتھا مرتبہ: ربط، یعنی عہد و پیمان کرنا اور ہر شخص سے اس کے اعتقاد کے موافق پختہ قول و اقرار کرنا کہ وہ ان بھیدوں کو فاش نہ کرے اور ان کو منظر عام پر نہ لائے، ان میں بعض ايسے ہیں جو مرتبہ تشکیک کے بعد مرتبہ چہارم میں حوالہ کرتے ہیں ان کی اصلاح ہیں حوالہ کہ يہ معنے ہیں کہ جو اور اپنے سے حل نہ ہو سکیں ان کی تشریح کےلئے امام کی طرف رجوع کرنا چاہيے۔ يہ بھی ظاہر کر دینا چاہيے کہ امام دراصل اسی کام کے لئے کہ علم بلا واسطہ غیب سے حاصل کر کے امت تک پہنچائے اور ایسی پریشانی کے دنوں میں بستہ امور کا حل بیان کر کے اختلافات کی جڑ کاٹے۔ اگر اہل سنت بھی اپنے علوم کا استفادہ امام سے کرتے تو آج اس زق زق بک بک میں نہ پڑتے اور الٹی سیدھی باتیں نہ کرتے۔
پانچواں مرتبہ: تدلیس،یعنی ان اکابردین، اکابر علماء اور برگزیدہ اولیاء کے بارے میں باجماع امت اس مذہب کے مخالف تھے يہ دعوی کرنا کہ وہ ہمارے ہم مذہب تھے۔مثلاً انہوں نے يہ کہا کہ حضرت سلمان فارسی ،ابوذرغفاری ،مقداد کندی اور عماریاسر رضی اﷲ عنہم شیعہ مذہب رکھتے تھے اور ان کے بعض کلمات کو اپنے جھوٹے دعوى پر بطور دلیل پیش کرنا۔ اور کہنا کہ حضرت حسان بن ثابت،حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم ،حضرت اویس قرنی اور تابعین میں سے حضرت بصری اور امام غزالی ملقب بحجتہ الاسلام بھی شیعہ تھے ۔
اور کتاب سرالعالین کو جو محض ان بزرگ پر افتراء و بہتان ہے۔ اپنے دعوی کا شاہد بنانا اور کہنا کہ حکیم سنائی،مولانا روم،شمس تبریز اور خواجہ شیرازی رحہم اﷲ بھی باطن میں شیعہ تھے۔ اور ان بیات کو جن ان سے منسوب ہیں یا ان کی مثنویات اور دیوانوں سے ملحق ہیں اپنے کلام کا گواہ بنانا۔
يہ ساری دروغ گوئی اس غرض سے کرتے ہیں کہ سامع کا میلان مذہب شیعہ کی طرف زیادہ ہو اور وہ سوچے کہ جس چیز کوان اکابرین دین نے اختیار کیا اور يہ پوشیدہ رکھا ہے لامحالہ اس میں بھی کوئی بھید اور راز ہے۔
چھٹا مرتبہ: تاسیس، یعنی اپنے قاعدوں منابطوں کو سامع کے ذہن میں رفتہ رفتہ جمانا۔ اور ان کے اصول مبادیات کو جو بمنزلہ بنیاد کے ہیں۔ ایسے طریقہ پر ان کے ذہن نشین کرنا کہ جب نتیجہ ان کے سامنے لایا جائے تو سوچ بچار کی گنجائش نہ رہے اور اس کو قبول کرتے ہی بنے۔ مثلاً کہتے ہیں کہ قرآن مجید تمام مسلمانوں کو محور دین و ایمان ہے کسی کو اس سے مجال انکار نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس میں جو کچھ فرمایا ہے ۔واجب القبول اور لائق تسلیم ہے۔ يہ کہہ کر پھر کہتے ہیں کہ آپ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی لقربی(آپ کہتے ہیں میں اس ہدایت پر قرابت داروں سے محبت کے کوئی مزدوری نہیں مانگتا) کیا معنی رکھتی ہے ۔اور الفاظ الالعنة اﷲ علی الظالمین۔خبردار ہو کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے کے متعلق کیا کہتے ہو۔اور قراة متواترہ اَرجُلِکُم (زیر کے ساتھ) کیا مطلب ظاہرکرتی ہے؟؟ اور قراةشاذہ فما اتمتعتم بہ منہن الی اجل مسمی۔ کیا مضمون ادا کرتی ہے۔
ساتواں مرتبہ:خلع، یعنی چہرہ کا پردہ ايک طرف رکھ کر صحابہ کرام رضوان اﷲ علہیم کی طرف ظلم و غضب کی نسبت کھلم کھلا کرنا۔ اور اپنے مذہب کے اصول وفروع کے صاف صاف بیان کرنا۔جب مدعو اس حد تک پہنچ جائے کہ سب امور کو برداشت کرے تو گویا مقصد حاصل ہوگیا۔ ان میں سے بعض خلع کے بعد ايک مرتبہ اور اضافہ کرتے ہیں جس کو سلخ کہتے ہیں،یعنی مدعو سے اپنے سابقہ معتقدات سے اظہار بیزاری کرانا اور اس کے آباؤ اجداد جو اس مذہب پر تھے ان سے اس کو متنفرکرنا۔ اور اولاد و اقارب سے قطع تعلق کرانا۔
عام طور پرتو ہوتا يہ ہے کہ ساتویں مرتبہ تک پہنچتے پہنچتے يہ باتیں ازخود مدعو میں پیدا ہو کر رہتی ہیں۔ اس لئے داعی کو ان امور ی دعوت کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔